آج ہم آپ کو پرمسرت اور خوشگوار زندگی گزارنے کا ایک نہایت مختصر اور آزمودہ نسخہ بتاتے ہیں یہ نسخہ صرف پانچ بنیادی اصولوں پر مشتمل ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی زندگی میں خوشی، سکون اور طمانیت اس لئے کم ہوتی جارہی ہے کہ ان اصولوں پر عملدرآمد بھی کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ بہر حال آج بھی دنیا میں بے شمار والدین اپنے بچوں کو اور بے شمار اساتذہ اپنے شاگردوں کو ان اصولوں پر عمل کرنے کی تلقین کرتے ہیں یا ایسی تعلیم دیتے ہیں جس کی بنیاد درحقیقت انہی اصولوں پر ہوتی ہے۔ ہم خواہ کتنے بھی سنگدل، خود غرض اور بے حسن ہو جائیں لیکن ہمارے دلوں کی گہرائی میں ہماری روحوں اور ہماری فطرت میں کہیں نہ کہیں ان اصولوں کے کچھ نہ کچھ اثرات ضرور باقی رہتے ہیں اور یہی اثرات دنیا کو مکمل تباہی سے بچائے ہوئے ہیں۔ بنیادی طور پر اور اختصار کے ساتھ ان اصولوں کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے۔
(1)کسی کو ضرر نہ پہنچائو۔(2)چیزوں کو بہتر بنانے کی کوشش کرو۔(3)دوسروں کی عزت کرو۔(4)ایماندار، صاف گو اور انصاف پسند بننے کی کوشش کرو۔(5)کسی نہ کسی رشتے کی مناسبت سے دوسروںسے محبت کروے۔
بظاہر تو یہ پانچوں اصول بہت معمولی اور سادہ سے نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ درحقیقت دنیا کا نظام جیسا تیسا بھی چل رہا ہے وہ انہی اصولوں کے سہارے چل رہا ہے۔ گو کہ اکثر غصے، حسد، تعصب، تنگ دلی، کم علمی یا کسی اور منفی جذبے کی وجہ سے ہم ان اصولوں پر پوری طرح عمل نہیں کر پاتے، کچھ عرصے کے لیے انہیں بالائے طاق رکھ دیتے ہیں یا ان پر ہماری گرفت بہت کمزور پڑجاتی ہے لیکن یہ اصول بہرحال مکمل طور پر اس دنیا سے یا ہماری زندگیوں سے رخصت نہیں ہوتے۔ کبھی کبھی ہم انہیں کافی حد تک ترک کردینے کی وجہ سے کافی پستی میں چلے جاتے ہیں اور ہمارا واپسی کا سفر دشوار ہو جاتا ہے۔مثلاً کوئی دکاندار، کوئی پڑوسی، راہ چلتا کوئی آدمی کسی وجہ سے ہمارے ساتھ بدتمیزی سے پیش آتا ہے جو ہمیں ناگوار گزرتی ہے تو ہم اسے کوئی ایسی بات سناتے ہیں جو اسے اس سے بھی زیادہ ناگوار گزرے اور اگر ہم اس پوزیشن میں ہوں کہ وہ ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکے تو ہم کچھ اور زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ دل ہی دل میں اپنے آپ سے یا پھر باآواز بلند اپنے جاننے والوں سے کہتے ہیں ’’دیکھا؟ میں نے کمینے کا کیسا دماغ ٹھیک کیا؟‘‘ ہوسکتا ہے اپنے اس طرز عمل سے ہمیں کچھ دیر کے لیے تسکین مل جائے لیکن درحقیقت اس طرح ہم متذکرہ بالا پانچ اصولوں میں سے پہلے اصول کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ یعنی ہم کم از کم اپنی زبان سے کسی دوسرے کو ضرر پہنچاتے ہیں اور اس طرح درحقیقت ہم خوداپنی روح کو ضرر پہنچاتے ہیں۔ برائی کا جواب برائی سے دینا اخلاقیات کے زمرے میں نہیں آتا اور اخلاقیات کے بغیر جینا انسان کے شایان شان نہیں۔ ہم نے جو پانچ اصول بیان کئے وہ درحقیقت دنیا بھر کی کل اخلاقیات کا خلاصہ ہیں۔ آپ اخلاقیات کی کوئی بھی بات کریں۔ گھوم پھر کر اس کا مفہوم کسی نہ کسی طرح ان پانچ اصولوں کے دائرے میں آتا ہے۔ ہم خواہ کچھ بھی کرلیں لیکن ہماری زندگی میں بہتری انہی اصولوں پر عمل کرنے سے آتی ہے۔ اگر ہم گہرائی سے اپنی زندگی کا اور ان اصولوں کا تجزیہ کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ گھوم پھر کر آخرکار فائدہ ہمیں انہی اصولوں پر عمل کرنے سے پہنچتا ہے۔ انہی لوگوں کی زندگی میں سکون، عافیت، اور طمانیت ہوتی ہے جو ان اصولوں کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو دھوکا دینے کے لیے وقتی جذبوں سے مغلوب ہوکر خواہ ہم کچھ بھی کہتے رہیں۔اگر آپ ان پر عمل کرتے ہوئے زندگی گزارنے کے عادی ہو جائیں تو آپ اپنے روز و شب میں ایک عجیب اور انوکھی تبدیلی محسوس کریں گے۔ آپ کا دل ایک ناقابل بیان خوشی اور جوش و خروش سے لبریز رہے گا۔ آپ صحیح معنوں میں خود کو ایک مطمئن، کامیاب اور اچھا انسان محسوس کریں گے۔ آپ کے ذہن کے تاریک گوشوں میں کسی قسم کی بے اطمینانی، پژمردگی اور ملامت کا احساس جاگزیں نہیں رہے گا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں